Add To collaction

لیکھنی ناول-22-Oct-2023

تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر3

اما بابا کے سامنے کتنے پیار سے بولتا ہے اور اکیلے میں کیسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ۔دعا کو مصطفی دوغلا انسان لگ رہا تھا ۔ میں لیٹ ہو جاؤں گی دعا نے بتانا ضروری سمجھا ۔ تم لیٹ نہیں ہوگی پورے چار بجے تمہیں گھر پہ ہی ہونا چاہیے ۔ دعا کو اس طرح سے مصطفی کا آرڈر کرنا بالکل پسند نہیں آیا تھا ہم فرینڈز ساتھ ہوتی ہیں ٹائم کا پتہ نہیں چلتا اس لئے میں آپ کو کوئی گرنٹی نہیں دے رہی کہ میں چار بجے تک واپس آ جاؤں گی ۔یہ کہہ کر وہ اٹھ کر جانے لگی جب مصطفیٰ بھی اس کے پیچھے آیا ۔ آؤ میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں مصطفی نے اسے آفر کی اور گاڑی کی طرف جانے لگا ۔ لیکن اس کی آفر کو اہمیت نہ کروہ واپس اندر آئی اور اپنے بابا کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر باہر لے آئی ۔ ارے بیٹا مصطفی کہہ تو رہا ہے وہ تمہیں چھوڑ دے گا ۔ نہیں مجھے آپ چھوڑیں گے مجھے نہیں جانا اس کھڑوس کے ساتھ دعا نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا ۔ ارے چاچو میں نے کہا نہ میں چھوڑ دوں گا انہیں باہر آتے دیکھ کر مصطفیٰ نے کہا ۔ نہیں مصطفی بھائی تھینک یو سو مچ مجھے میرے بابا ہی چھوڑیں گے ۔ اس کے بھائی کہنے پر مصطفیٰ نے ایک شکوہ بھری نظر سے چچا کو دیکھا ۔ جواب میں وہ کچھ نہیں بولے بس نظر جھکا گئے بابا دو تین باراسے فون کر چکے تھے۔ ۔لیکن اس نے یہی کہا کہ وہ ابھی نہیں آنا چاہتی وہ اپنی فرینڈ کے ساتھ بزی ہے ۔۔ اس سے پہلے وہ اتنی دیر تک کبھی گھر سے باہر نہیں رہی تھی ۔۔ اسی لیے بابا بھی اس کے اتنی دیر تک گھر سے باہر رہنے پر پریشان تھے ۔ مصطفی کے بابا کا فون آیا اور انہوں نے کہیں بار اس کے بارے میں پوچھا وہ اِس سے بات کرنا چاہتے تھے مصطفیٰ نے اسے بتایا بھی تھا کہ وہ چار بجے سے پہلے گھر آ جائے لیکن وہ نہیں آئی مصطفی کو اس بات کا بہت غصہ تھا اس وقت رات کے 8 بج رہے تھے اور وہ ابھی تک نہیں آئی تھی ۔ چاچا کی طبیعت خراب تھی۔ان کا بی پی تھوڑا ہائی تھا ۔ چاچو آپ آرام کریں۔ وہ جب آئے گی تو میں اس سے پوچھ لوں گا ۔اگر آپ کہیں تو میں اسے لینے چلا جاتا ہوں ۔ نہیں بیٹا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ واپس آ جائے گی ۔وہ مصطفی کے سامنے ذرا شرمندہ سے ہو کر بولے ۔ کوئی بات نہیں چاچو آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں اب جاہیں آرام کیجئے آ جائے گی وہ گھر۔ ۔مصطفی نے کہا ۔لیکن اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کے غصے کا اندازہ لگانا بہت آسان تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ گھر آئی اور بے فکر ہو کر اپنے کمرے میں جا رہی تھی جبکہ ٹی وی لانچ میں وہ مصطفیٰ کو بیٹھا دیکھ چکی تھی ۔۔۔ اسے آتا دیکھکا مصطفیٰ کھڑا ہوگیا ۔ وقت دیکھا ہے تم نے۔۔؟ ایک بے حد سخت آواز نے اس کا راستہ روکا ۔ مڑ کر دیکھا تو مصطفیٰ سینے پر ہاتھ باندھے ٹی وی لانچ سے باہر آیا تھا ۔ جی دیکھ لیا ہے۔۔ دعا نے مڑ کر جواب دیا اور پھر اپنے کمرے میں جانے لگی ۔ میں نے کیا کہا تھا تم سے چار بجے سے پہلے گھر آ جانا بابا تم سے بات کرنا چاہتے ہیں اور تم اب آ رہی ہو رات کے پونے نو بجے یہ وقت ہے تمہارا گھرآنے کا اچھی لڑکیاں اتنی دیر تک اس سے باہر نہیں رہتی مصطفیٰ نے سے نرمی سے سمجھانا چاہا ۔۔ آپ مجھے نہ بتائیں کہ اچھی لڑکی کیا کرتی ہیں اور کیا نہیں آپ اور آپ کے بابا سے مجھے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔اور میں آپ کے مطابق اپنا ٹائم ٹیبل سیٹ نہیں کر سکتی ۔یہ کہہ کر دعا اپنے کمرے میں جانے لگی۔ میرےبابا ہوسپٹل میں ہے انہیں فون پر بات کرنا منع ہے۔ مشکل سے سارے دن میں ایک بار بات کرنے کی اجازت ملتی ہے ۔وہ تم سے بات کرنا چاہتے تھے ۔ اور تمہاری پارٹی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔مصطفی واقعی ہی بہت غصے میں تھا ۔ دعا کو بھی اس کے بابا کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا لیکن اس ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ دیکھیں مصطفی بھائی مجھے آپ کے پاپا سے بات کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ۔ ‏شٹ اپ ۔خبردار جو تم نے میرے بابا کے بارے میں کچھ بھی کہا بابا سے بات تو تمہارے اچھے بھی کریں گے ۔اور اگر آج کے بعد تم نے مجھے بھائی کہہ کر پکارا تو زبان کھینچ لوں گا تمہاری ۔وہ اتنے زور سے دھاڑا کے دعا دو قدم پیچھے ہٹی کچھ زیادہ ہی چھوٹ دے رکھی ہے چاچا چاچی نے تمہیں اب تمہارے دماغ میں ٹھکانے پر لگاؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا ۔ جبکہ دعا کو یہ سوچ کر غصہ آ رہا تھا کہ اس کے گھر آیا ایک مہمان اس پر حکم چلا رہا ہے ۔ اور ساتھ میں رونا بھی کیوں کہ آج تک دعا سے کسی نے اتنی سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج اس کا لاسٹ پیپر تھا اس لیے وہ کوئی گڑ بڑ نہیں چاہتی تھی اکثر اگر صبح اس کا موڈ خراب ہو جائے تو اس کا سارا دن خراب گزرتا۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ رات مصطفیٰ کے رویے کے بارے میں یہ بابا کو نہیں بتائے گی ۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ صبح صبح اس کا موڈ خراب ہو اس کو پتہ تھا کہ اس وقت تک مصطفیٰ چلا گیا ہوگا اس لئے جان بوجھ کر لیٹ کمرے سے باہر نکلی۔ لیکن شاید آج اس کی قسمت میں اس کا موڈ خراب ہونا لکھا ہوا تھا کیونکہ کمرے سے باہر نکلتے ہی مصطفیٰ باہر نظر آگیا مصطفی کومکمل اگنور کرکےاس نے کو سلام کیا ۔۔سفید یونیفارم میں پونی ٹیل کیے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ویسے ان کے کالج میں یونیفارم نہیں پہنی جاتی تھی لیکن پیپر کے دوران باہر کالج سے ڈی او آتے تھے ۔ جس کی وجہ سے کی ٹیچرز نے مکمل یونیفارم میں آنے کے لیے کہا تھا تاکہ ان لوگوں کے کالج کا نظام خراب نہ لگے۔ جبکہ ان کے کالج میں دو سیکشن تھے لڑکیوں کا الگ اور لڑکوں کا الگ ۔جن میں سے کچھ کلاس ایک ساتھ ہوتی تھی ۔جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ لیکچر لیتے۔ باقی کالج کی طرح اس کے کالج میں بھی ہر طرح کی آزادی تھی ۔ چلیں بابا چلتے ہیں ۔اس نے بابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ بیٹا ناشتہ تو کر لو ۔مامانے محبت سے کہا ۔ مامامیں کا لج میں کر لوں گی ابھی بالکل ٹائم نہیں ہے لیٹ ہو رہی ہوں ۔اس نے ٹیبل سے ایک ایپل اٹھایا ۔اور پھر سے بابا سے کہا ۔ ہاں بیٹا آج سے تمہیں مصطفی چھوڑنے جایا کرے گا ۔صبح صبح ہی اس کے سر پر دھماکا کیا گیا ۔ آج سے نہیں بابا صرف آج ہی جانا ہے آج آخری پیپر ہے میرا اور مجھے آپ ہی چھوڑنے جائیں گے اٹھیں ۔اس نے بابا کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئےکہا ہاں بیٹا وہی تو کہہ رہا ہوں آج تملیں مصطفی کالج چھوڑ جائے گا ۔بابا نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ مجھے آپ چھوڑنے جائیں گے اس وقت وہ بابا کو نہیں بتانا چاہتی تھی کہ مصطفی نے اس رات کواسے کتنا ڈانٹا ہے کیونکہ یہ بتانے کا ارادہ وہ گاڑی میں رکھتی تھی ۔ ضد مت کرو میں باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں جلدی آؤ ۔یہ کہہ کر مصطفیٰ باہر چلا گیا ۔ جبکہ اس کے آرڈر چلانے پر دعانے بابا کی طرف دیکھا ایک مہمان اس کے ماما بابا کے سامنے اس پر آرڈر چلا رہا ہے ۔ جاؤ بیٹا وہ انتظار کر رہا ہے اس کو اسی طرح کھڑے دیکھ کر بابا کرنے کہا ۔ جب کہ وہ روٹھے انداز میں گھر سے باہر نکل گئی ۔اور اس کے اس طرح سے روٹھنے پراس کے ماں باپ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرایں۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ سارے راستے دعا چپ رہی کچھ نہ بولی اس کا سارا دھیان کھڑی سےباہر کی طرف تھا کھڑکی سے باہر بھی کچھ انٹرسٹڈ نہ تھا کیونکہ یہ راستہ وہ روز دیکھتی تھی کون سے سبجیکٹ ہیں تمہارے ۔۔۔؟ بہت نرمی سے سوال آیا لیکن دعا نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا ۔ دیکھو دعا رات والی بات کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہو تو تم نے واقعہ غلطی کی ہے کیا لڑکیاں اچھی لگتی ہیں اتنی رات گئے باہر رہتی۔۔؟ بہت دیر جواب نہ ملنے پر مصطفیٰ نے پھر کہا ایک منٹ میں آپ سے ناراض کیوں ہوں گی ۔۔؟ آپ نا تو میرے دوست ہیں اور نہ ہی میرے بھائی ۔صرف کزن ہیں ۔اورکزن ایسا رشتہ نہیں ہے جس کی بنا پر ناراض ہوا جائے ۔ اور جہاں تک میرا رات کو گھردیر سے آنے کی بات ہے تو ایک بات آپ جان لیں آپ ہمارے گھر کے مہمان ہیں آپ میری پرسنل لائف میں دخل اندازی نہیں کر سکتے ۔میں نے ماما اور بابا کو آپ کے رویے کے بارے میں نہیں بتایا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں آپ سے ڈر گئی ہوں یا آپ کی بات مان رہی ہوں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میری لائف میں اتنی اہمیت رکھتے ہی نہیں ہیں کہ میں آپ کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتاؤں۔ یا خود سوچ کر اپنا وقت ضائع کروں میں آپ کا لحاظ صرف اس لئے کر رہی ہوں کیونکہ آپ چند دن کے مہمان ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ یہ اپنا حکم کہیں اور جاکر چلائیں ۔مجھ پر اتنا حق نہیں رکھتے آپ ۔لگی لپٹی رکھے بغیر وہ اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال چکی تھی حق ۔ساری تقریر میں مصطفی نے صرف حق لفظ ہی نوٹ کیا تھا ۔ تمہں مجھ سے ناراض ہونے کا حق میں خود دیتا ہوں تم اپنے ماں باپ سے میری شکایت کرو یا میرے خلاف کچھ بھی بتاؤ مجھے تمہیں کچھ بھی کہنے سے وہ نہیں روک سکتے اور میرا حق نہیں ہے تم پر ۔۔ہں۔اس نے مسکرا کر اپنی گردن نفی میں ہلائی۔ اپنے ماں باپ سے پوچھنا میں کیا حق رکھتا ہوں تم پر ۔اتناحق ان کا نہیں ہے جتنا میرا ہے ۔ مصطفی بولے جا رہا تھا ۔لیکن دعا سننے میں بھی کوئی انٹرسٹ نہ رکھتی تھی جاؤ تمھارا کالج آگیا ۔اس کے کالج کے سامنے گاڑی روک کر بولا ۔ پیپر ٹھیک سے دینا ۔سوچ سمجھ کر حل کرنا ۔مجھے نا لائق لوگوں سے سخت چڑ ہے ۔اور تمہارے پرانے رزلٹز میں دیکھ چکا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا جبکہ دعا سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ اس سے بتا رہا ہے یا پھر دھمکا رہا ہے ۔ یااللہ ایسا کزن میں نے نہیں مانگا تھا مجھے تو ایک اچھا سا کزن چاہیے تھا جس سے میں اپنی ہر بات شیئر کر سکوں اپنا بیسٹ فرینڈ بنا سکوں اس کو آپ واپس لے لو ۔۔ ہٹلر ۔کھڑوس ۔سڑو ۔اکڑو ۔اس کو خطبات سے نواز تی وہ کالج کے اندر آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو انسپیکٹر مصطفی ۔فون اٹھاتے ہی ایک آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔۔ معاف کیجئے گا جناب میں نے آپ کو پہچانا نہیں مصطفی نے ایک دفعہ نمبر دیکھا پھر کان سے لگایا ۔ تم مجھے نہیں پہچان سکتے مصطفی لیکن تمہاری بہادری کے اتنے قصے سنے ہیں کہ اب مجھے تم سے ملنے کا تجسس ہو رہا ہے ۔۔۔ آپ ہیں کون۔۔؟ پہلے یہ بتانا پسند کریں گے مصطفی کو اس کی باتوں میں کوئی خاص انٹرسٹ نہ تھا ۔۔ ہاں کیوں نہیں ضرور بتاؤں گا لیکن ایسے نہیں تم سے مل کر ۔ویسے بہت نایاب اور انمول چیز لے کے جا رہے تھے صبح ۔ایسی نایاب چیزوں کو بغل میں لے کر نہیں گھوما کرتے زمانہ بہت خراب ہے ۔گویا اسے ڈرایا گیا ۔ یقیناً وہ دعا کی بات کر رہا تھا اور وہ دوستانہ لہجے میں چھپا اس کا کوئی دشمن تھا ۔ بکواس بند کرو ۔ کون ہو تم ۔۔؟ مصطفی نے غصے سے کہا وہی جسے تم ڈھونڈ رہے ہو ۔ طارق بھٹی ۔مصطفی نے لمحے کی دیر کیے بغیر پہچان لیا ۔ ہا ہا اتنی محبت کرتے ہو تم مجھ سے کہ ایک لمحے میں پہچان لیا آگے سے قہقہ لگایا گیا تم سے کتنی محبت کرتا ہوں یہ تمہیں میں اپنے تھانے میں ڈنڈے سے بتاؤں گا۔ مصطفیٰ اسی کے انداز میں بولا ۔ زبان سنبھال کے بات کرو مصطفیٰ یہ نہ ہو کہ مجھے تھانے میں لے جانے کی خواہش پوری ہو نہ ہو ۔ ہاں مگر کیا نام ہے اس چڑیا کا دعا سلطان کہیں میری خواہش نہ بن جائے ۔ خبردار تم نے دعا کرنام بھی لیا تو میں تمہاری زبان کھنچ لوں گا مصطفی غصے سے داڑھا ۔ مصطفی اپنی کمزوریوں کو بغل میں دبا کر نہیں گھومنا چاہیے ۔سمجھایا گیا ۔ طارق بھٹی جو اپنی کمزوریوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں انہیں ان کی حفاظت کرنا بھی آتا ہے ۔تم نے اگر دعا پر آنکھ بھی اٹھائی تو زندگی پر کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جسے ہی کالج سے نکلی۔ مصطفی پہلے سے اس کے انتظار میں کھڑا تھا اسے دیکھنے کے باوجود وہ اسے اگنور کرکے سعدیہ کی گاڑی میں آبیٹھی کیا ہوا آج تمہارے بابا نہیں آئیں ۔..؟ نہیں شاید وہ نہیں آئے کوئی بات نہیں تم چھوڑ دو مجھے ۔دعانے آرڈر دیا اوکے میڈم اور کوئی حکم ۔سعدیہ نے مسکرا کر کہا نہیں فلحال بس اتنا ہی چلو ۔ مصطفی جانتا تھا کہ وہ جان چکی ہے کہ وہ اسے لینے آیا ہے لیکن پھر بھی وہ اس کی گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے کسی دوست کے ساتھ جا رہی تھی ۔۔ مصطفی کو بہت غصّہ آیا وہ گاڑی سے نکلا تب تک سعدیہ کی گاڑی سٹارٹ ہو کر کالج سے باہر نکل چکی تھی ۔ دعا تم خود مجھے سختی کرنے پر مجبور کرتی ہو ۔بڑابڑاتے ہوئے گاڑی میں آ بیٹھا ۔ ابھی سعدیہ کی گاڑی نے ایک ہی موڑ کاٹا تھا کہ مصطفیٰ کی گاڑی بالکل اس کے سامنے آرکی۔ وہ غصے سے گاڑی سے نکلا اور ان کی گاڑی کے قریب آیا ۔دعا کے سائیڈ کاڈور کھولا ۔ چلو میرے ساتھ دعا جب تم دیکھ چکی ہومیں تمہیں لینے آیا ہوں تو پھر مجھے اگنور کرنے کا کیا مقصد ہے ۔۔؟مصطفی نے اس سے پوچھا ۔ میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا ۔دعا نے جھوٹ بولا ۔ لیکن وہ اس وقت بیچ سڑک پر اس سے بحث نہیں کرنا چاہتا تھا خیر کوئی بات نہیں اب تو دیکھ لیا چلو مصطفیٰ نے ایک طرف ہو کر کہا نہیں آج میں اپنی فرینڈ کے ساتھ جا رہی ہو ں۔ دعا نے سعدیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ دعا پھر میں تم پر غصہ کرتا ہوں تو تمہیں برا لگتا ہے اپنی حرکتیں دیکھی ہیں تم نے ۔چلو یہاں سے اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی گھسیٹتے ہوئے وہ گاڑی سے نکال کر اپنے ساتھ لے گیا ۔ جب کہ سعدیہ ان دونوں کی کاروائی دیکھتی رہ گئی چھوڑیں میرا ہاتھ آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے ۔دعا چلائی خبردار جو تم زبان سے ایک لفظ بھی نکالا ۔ گاڑی میں اسے زبردستی پٹک کر وہ دوسری سائیڈ آگیا ۔ میں تم سے جتنی نرمی سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے اتنا ہی غصہ دلاتی ہو ۔ مجھے کوئی انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور مت کرو دعا ۔یقین کرو تمہارے معاملے میں میرا دل بہت نرم ہے ۔آخری لائن اس نے بہت دھیمے لہجے میں بولی تھا کہ شاید ہی دعا سن پائی ہو

   1
0 Comments